سکردو (ٹی این این کرائم رپورٹر ) گزشتہ روز حسین آباد بلتستان کے پیش امام آغا مظاہر اور اُنکے بیٹوں کے ظلم کا شکار ہونے والے تقی ولد قربان ساکن حسین آباد برق چھن کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ متاثرہ شخص کو آغا مظاہر اور ان کے بیٹوں نےہیلے بہانے سے اپنے گھر لیجا کر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا ۔سوشل اور پرنٹ میڈیا میں خبر نشر ہونے کے بعد قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آگئی اور درخواست گزار کی جانب سے الزامات عائد کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر چاک کر کے ملزمان کو گرفتار کیا گیا تاہم مرکزی ملزم آغا مظاہر کو گرفتار کرنے کے بجائے ضمانت قبل از گرفتاری کا موقع دیا گیا باقی ملزمان کو گرفتار کرکے ریمانڈ حاصل کی الزام ناموس سے چھیڑ خانی کا بتایا جاتا ہے۔
تحریر نیوز ٹیم نے واقعہ کے اصل محرکات جاننے کے سلسلہ میں حسین آباد کے کئی سرکردہ شخصیات اور جوانوں سے اس ضمن میں انٹرویو لیا ۔انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ہے کہ عرصہ دراز سے یہاں اس طرح کے لرزہ خیز واقعات رونما ہوتا رہا لیکن ڈر اور خوف کے سبب معاملہ دبتا رہا درجن سے زائد قتل ہوئے ہیں آج تک کہیں بھی رپورٹ درج نہیں ہوئی ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دس سے بارہ افراد کا ایک گروپ ہے جوکہ گاوں کے بااثر لوگوں پر مشتمل ہیں جنہوں نے اپنا الگ قانون بنا رکھا ہے کوئی بھی شخص ان افراد کی مرضی کے خلاف کہیں جانے کی جرات نہیں کر سکتے ۔
علاقہ حسین آباد کے جوانوں نے سنسنی خیز انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ باقاعدہ ٹارچر سیل کئی جگہوں پر بنائی ہوئی ہے وہاں لے جا کر سرپنج فیصلہ سنا کر ٹارچر سیل میں لے جا کر خود تشدد کا نشانہ بنانے کے کئی واقعات ہیں اس ڈر اور خوف کی وجہ سے کوئی بھی شخص منہ کھولنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے چند ہی عرصہ میں یہ اپنی نوعیت کا تیسرا اور سب سے بڑا واقعہ رونما ہوا جب تک ان لوگوں کو لگام دینے والا کوئی نہیں ہوگا تب تک یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گی ۔دوسری جانب متاثرہ شخص کو جاننے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ مسمی تقی ولد قربان انتہائی شریف النفس ملنسار اور اپنے کام سے کام رکھنے والا لڑکا ہے آج تک محلہ میں ناموس کو چھیڑنا تو دور کی بات آنکھ اٹھا کر بھی کسی کو نہیں دیکھے اس طرح سے گھناؤنے الزام لگا کر ملزمان اپنی جرم کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق اصل کہانی کچھ اور بتایا جارہا ہے ،متاثرہ لڑکے کے ماموں زاد بھائی فوج میں تھے اور کئی سال پہلے شہید ہوچُکے ہیں، شہید کے پسماندہ گان میں بیوہ سمیت تین یتیم بچے چھوڑے ہیں جوکہ ابھی نابالغ ہے جبکہ بیوہ نے غیر اعلانیہ طور ملزم آغا مظاہر سے شادی کر رکھی تھی۔ جب متاثرہ شخص نے اس پر اعتراض کیا تھا کیونکہ اگر شادی کا علم ہوجاتا تو بیوہ کو جو مراعات فوج کی طرف سے ملنی تھی وہ بند ہونا تھا مگرملزم آغا مظاہر اپنے آپ کو شرعی و قانونی طور پر ولی بنانے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا تھا جس کا علم انہیں پہلے سے ہی تھا۔ بیوہ نے راستہ میں رکاوٹ کو دور کرنے کیلئے مذکورہ ملزم کے ملکر سازش تیار کیا
اور طے شدہ منصوبے کے مطابق انہوں نے عزت کے ساتھ کھیلنے کاالزام لگا کر بدترین تشدد کی گن پوائنٹ پر اس سے اپنے مطلب کے بیان ریکارڈ کروایا گیا ۔
ایک اور متاثرہ شخص اکبر مقپون جوکہ حسین آباد کا رہائشی ہے انہوں نے احتجاجی مظاہرے کے دوران ملزمان پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ چند سال پہلےاسی طرح سے الزام لگا کر مجھے بھی بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کے رپورٹ کے مطابق ملزم آغا مظاہر نے شادی سے انکار کرنے کی باتیں سامنے آرہی ہے۔ متاثرہ لڑکے کے متعلقین نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ نامزد ملزمان کو بچانے کیلئے سپیکر قانون ساز اسمبلی فدا محمد ناشاد ،سکردوانتظامیہ اور پولیس کے اعلی افسران کے اوپر دباوڈال رہا ہے۔ انہوں نے اپنے پی اے کے ذریعہ دباو بڑھا کر صلح کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔جبکہ متاثرہ خاندان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں اور وزیر اعلی اور گورنر گلگت بلتستان سے اپیل کرکیا ہے کہ اُنکی داد رسی کریں کیونکہ وہ لوگ کمزور لوگ ہیں آگے پیچھے کوئی نہیں ہے جبکہ آغا مظاہر اپنے سیاسی اثررسوخ کی بنیاد پر آج تک حسین آباد میں مذہبی لبادے میں ایک طرح خود ساختہ عدالت اور تھانہ لگائے بیٹھے ہیں ۔
Gilgit-Baltistan’s first online premier news network
GilgitBaltistan
More Stories
1971 کی جنگ نے خطہ لداخ کی محبت سے کی ہوئی شادی شدہ جوڑے کو کس طرح جدا کردیا درد ناک کہانی
خطہ بلتستان لداخ بارڈر پر پاک بھارت کے فوجی ایک دوسرے سے سگریٹ ڈرائی فروٹ کا تبادلہ کرتے ہیں مگر بچھڑے ہوئے خاُندانوں کو ملنے کیلئے لداخ سکردو روڈ آخر کیوں نہیں کھول رہا؟
عوامی ایکشن کمیٹی دو گروپوں میں تقسیم کے بعد ایک گروپ نے غذر روڑ بند کرنے کا اعلان کردیا اور غذر کے عوام کا بڑا بیان سامنے اگیا